غلام ہو تو بلال ابن
ربہ رحم اللہ علیہ جیسا
بلال ابن ربہ رحم اللہ
علیہ اسلامی تاریخ کا ایک مشہور نام ہے۔ ایک نیگرو غلام اصل میں حبشہ (ایتھوپیا)
سے ہے ، بلال اسلام کی انسانی مساوات ، نسل پرستی اور معاشرتی مساوات کے احترام کی
ایک واضح کہانی ہے۔ مکہ مکرمہ میں پیدا
ہوئے ، اپنے غلام والدین - رباح اور حمامہ کے ساتھ ، - بلال نے بھی ، اسلام کے ایک
دشمن دشمن ، امیہ بن خلف کےغلام کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔
اعلان نبوت کے چند روز
بعد حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)ایک رات مکہ کی ایک گلی سے گزر رہے تھےکہ انہیں
ایک گھرسے کسی کے رونے کی آواز آئی آواز میں اتنا درد تھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم)بے اختیار اس گھر میں داخل ہوگئے دیکھا تو ایک نوجوان جو حبشہ کا معلوم
ہوتا ہے چکی پیس رہا ہے اور زورو قطار رو رھا ہے حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم) نے اس سے رونے کی وجہ پوچھی تواس نے کہا کہ میں ایک غلام ہوں سارا دن اپنے
مالک کی بکریاں چراتا ہوں شام کو تھک کر جب گھر آتا ہوں تو میرا مالک مجھے گندم کی
ایک بوری پیسنے کیلئے دے دیتا ہے جس کو پیسنے میں ساری رات لگ جاتی ہے میں اپنی قسمت
پر رو رہا ہوں کہ میری بھی کیا قسمت ہے ۔
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم)نے فرمایا میں تمہارے مالک سے کہہ کرتمہاری مشقت تو کم نہیں کروا سکتالیکن
میں تمہاری مدد کر سکتا ہوں کہ تم سو جاؤ اور میں تمہاری جگہ پر چکی پیس لیتا ہوں
تو وہ غلام بہت خوش ہوا اور شکریہ ادا کر کے سو گیاتو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے چکی پسنی شروع
کر دی دورات ایسا چلتا رہا ۔
چوتھی رات آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے غلام نے پوچھا کہ
آپ کون ہیں تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم) نے فرمایا تمہیں معلوم ہے کہ مکہ میں ایک شخص نے نبوت کا دعوی کیا ہے تو
غلام نے کہا ہاں میں سنا ہے کہ ایک شخص جس کا نام محمد ہے اور اپنے آپ کو اللہ کا
نبی کہتا ہے تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں
وہی محمد ہوں تو یہ سن کر اس غلام نے کہا
اگر آپ وہی نبی ہیں تو مجھے اپنا کلمہ پڑھا کر مسلمان کر دیں کیوں کہ اتنا
شفیق اور مہربان کوئی نبی ہی ہو سکتا ہے تو
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے
انہیں کلمہ پڑھاکہ مسلمان کردیا پھر دنیا بھر نے دیکھا اس غلام نےتکلیفں برداشت کی
لیکن دامن مصطفی نہ چھوڑاآج دنیاانہیں بلال حبشی ابن ربہ رحم اللہ علیہ کے نام سے
جانتی ہے۔
جب امیہ نے بلال کے
اسلام قبول کرنے کے بارے میں سنا تو اس نے اسے تشدد کا نشانہ بنایا اور اسے اس سے
نیا عقیدہ ترک کرنے پر مجبور کردیا۔ لیکن حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور
اسلام کی محبت سے بھرا ہوا ، بلال انتہائی اذیت کے باوجود اپنے ایمان پر قائم رہے
اور "احد ، احد" کہتے رہے۔ (اللہ ایک ہے ، اللہ ایک ہے)
جب حضور نبی اکرم (صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کے فتنے کے بارے میں علم ہوا تو آپ نے ابوبکر کو بھیجا
، جس نے اسے ظالم سے خریدا اور اسے آزاد کرایا۔ آزادی بلال کو اسلام کا پہلا تحفہ
تھا۔ دوسرے خلیفہ عمر بن خطاب نے انہیں سیدنا (ہمارے قائد) کے نام سے پکارا۔
بلال حضرت محمد صلی
اللہ علیہ وسلم کے سب سے قابل اعتماد اور وفادار ساتھی بن گئے۔ وہ اسلام قبول کرنے
والے پہلے چند افراد میں شامل تھا۔
بلال رسول اللہ کے ساتھ
ہجرت کرکے مدینہ منورہ آئے اور بڑی جنگوں میں حصہ لیا جن میں بدر ، اوہود ، خندق
اور دیگر شامل ہیں۔ بدر کی جنگ میں ، اس نے اسلام کے سخت دشمن اور اس کے اپنے ہی
سابق ظالم آمر امیہ کو ہلاک کیا۔
پیغمبر اسلام حضرت محمد
11،400 سال پہلے عالمی تاریخ کے ورقوں میں انسانوں میں مساوات کا اعلان کرنے والے
پہلے شخص تھے۔ حج کے دوران 120،000 سے زیادہ صحابہ کی موجودگی میں ، انہوں نے
اعلان کیا: اے لوگو! آپ کا پروردگار ایک ہی رب ہے ، اور آپ سب ایک ہی والد (آدم)
کے شریک ہیں۔ بے شک ، کسی عرب سے غیر عرب یا کسی عرب سے زیادہ عرب کی فوقیت نہیں
ہے۔ یا کسی سیاہ فام سے سفید۔ اور نہ ہی کسی سیاہ فام پر سفیدی کے ، سوائے تقوی
کے۔
پیغمبر نے بلال کو اپنے
ممتاز ساتھی میں سے منتخب کیا۔ بلال کا اسلام میں اہم مقام حاصل ہونا اسلام میں
کثرتیت اور نسلی مساوات کی اہمیت کا ثبوت ہے۔
ایمان کا وہ پیکر جن کے سینے پر بھاری پتھر رکھے، دہکتے انگاروں پر
لٹایا بدن کی چربی پگھل کر انگارے بجھایا کرتی مگر لب پر احد احد کے نعرے نہ روکے
جا سکے
یہ عشق تھا کبھی عید پر کپڑے نہیں سلوائے
مگر جب وقت وصال آیا
کپڑے بنوائے،سرمہ لگایا،بال بنوائے
کسی نے وجہ پوچھی تو کہا
"سرکار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا وقت جو
آگیا ہے"
رنگ کالا تھا، ہونٹ موٹے تھے
مگر عظمت اتنی کہ مدینے کی گلیوں میں چلتے تو قدموں کی آہٹ جنت میں
سنائی دیتی تھی